Saturday, July 24, 2010

پیغام ~ [ MESSAGE]

 [A Poem written by me a decade ago.. seems true today too]


یہ ویران پتھرائی ہوئی آنکھوں میں


... مایوسیوں کے بوسیدہ پھول


....یہ سناٹے ، یہ آہیں ، یہ سسکیاں


... یہ سلے ہوئے لب


... نہیں ہے جن میں کچھ تاب بیاں


... یہ کچھ پیغام دیتے ہیں


... ... کسی کا لال تھا یا کسی کی آنکھ کا تارا


... کسی کی ساری امیدوں کا مرکز


... کسی کی زیست کا واحد سہارا


...یہ قدم قدم پہ بے سر و سامان


، بکھری ہوئی، خون آلود انسانی جان


...یہ بھی کچھ پیغام دیتی ہے


... کسی مغموم لہجے میں


.. کرب سے بوجھل، کانپتے ہوئے زرد ہونٹوں سے


..یہ سوال کرتی ہے


... آخر یہ سب کب تک ؟


.... یہ کہتی ہے ، اٹھو


.. بازی گروں کے سجاۓ ہوئے تماشے


... حقیقت کی نظر سے پہچانو


.. کہ ان کے اندر بھید بہت گہرے ہیں


.. یہ کہتی ہے


... چمکتے آئینوں کے خو ل سے نکلو


... کہ آئینے منزل کا پتہ نہیں دیتے ...

1 comment: